قینچی اور درانتی (لوک کہانی)
بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ یوں تو وہ ہر
لحاظ سے خوش حال رہتا تھا کیونکہ اس کا کھیت وسیع تھا اور فصل ہمیشہ عمدہ ہوتی تھی
لیکن بیوی کی وجہ سے اس کا ناک میں دم رہتا تھا۔ وہ بہت ہی ضدی اور ہٹ دھرم تھی
اور ہمیشہ الٹی بات سوچتی تھی۔ اسی لیے گائوں کے سب ملنے جلنے والوں نے اس کا نام
” الٹی کھوپڑی“ رکھ دیا تھا۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے اسی نام سے پکار کر اسے پکارتے اور جب وہ مارنے کے لیے دوڑتی تو دور بھاگ جاتے تھے۔ وہ کھیت میں کام کرتی تو ایک جھاڑی سے آواز آتی ”ارے بہن الٹی کھوپڑی کیا کررہی ہو۔“ وہ جل کر اس جھاڑی کی طرف لپکتی تو فوراً دوسری جھاڑی سے ویسی ہی آواز آتی۔ وہ رک جاتی اور پلٹ کر دوسری طرف جاتی کہ اتنے میں ایک اور آواز تیسری جھاڑی سے آتی۔ یہ سب کچھ ہوتا لیکن وہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑتی تھی۔
پڑوس کی عورتیں بھی اس سے تنگ آگئی تھیں جب وہ بولتیں کہ کنویں پر چلیں، پانی لے آئیں تو وہ کہتی کہ نہیں پانی تو ندی سے لانا چاہیے۔ جب وہ کہتیں کہ آئواپلے پہاڑی پر تھاپ دیں تو وہ کہتی کہ نہیں پہاڑی کے دامن میں مناسب رہیں گے۔ جب مچھلی والا اس کے گھر کے قریب آواز لگاتا ”بام مچھلی لے لو، بام مچھلی۔“ تو وہ کہتی کہ تم سرمئی یا سنگھاڑا کیوں نہیں لائے اور جب سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی ہوتی تو بام مانگتی۔ کسان کہتا کہ آج آلو پکا لو تو وہ کہتی کہ نہیں آج تو دال پکے گی۔ خاوند کہتا کہ میری قمیض پھٹ گئی ہے۔ ذرا اس کوسی دو، تو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ درست کرالو، حالاں کہ وہ پہلے ہی ٹھیک ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کو سخت جاڑے میں ٹھنڈا شربت پلا کر بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی کے موسم میں صرف گرم چائے پی جاتی ہے۔ اسی لیے سب کو یقین تھا کہ اس کی کھوپڑی الٹی لگی ہوئی ہے۔
پڑوسی آکر کسان سے شکایت کرتے کہ تمہاری بیوی ہمیشہ ہم سے الجھتی رہتی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرکے کہتا ”بھائیو! اسے غنیمت سمجھو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ وہ باہر نکل کر صرف چند لمحے کے لیے تم سے الجھتی ہے۔ میرا اس کا ہر وقت کا ساتھ ہے۔ وہ اپنی الٹی کھوپڑی سے میرا دماغ بھی الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ میں رات کو تھکا ہارا چت لیٹتا ہوں تو وہ ٹہوکا دے کر کہتی ہے کہ کروٹ سے کیوں نہیں لیٹتے۔ جب میں کام پر جلدی جانے کے خیال سے روٹی کے نوالے تیز تیز کھاتا ہوں، تو وہ روک کر کہتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں ہے، ابھی بہت دقت ہے اور جب میں آہستہ آہستہ اطمینان سے روٹی کھاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ جلدی کرو، کام کاہرج ہو رہا ہے۔ کھانا ساتھ لے جائو۔ راستے میں چلتے چلتے کھا لینا، حالاں کہ اس روز کھیت پر جلدی جانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے بھائیو! میں تو خود بھی اس سے تنگ آگیا ہوں، بتائو تمہاری شکایات کس طرح دور کروں؟“
فصل پک جانے کا زمانہ تھا۔ ایک روز دونوں میاں بیوی صبح ہی صبح اپنے کھیت دیکھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ کسان نے خیال ظاہر کیا، ” منگل تک فصل کاٹنے کی نوبت آئے گی“ بیوی بولی ”نہیں بدھ سے پہلے یہ کام ہر گز شروع نہ کیا جائے۔“
خاوند نے کہا ” بہت اچھا ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے دو بھائیوں کو بلوا لوں تاکہ وہ ہمارا ہاتھ بٹا سکیں۔“ بیوی بولی۔ ” نہیں میرے دو بھائیوں کو بلوائو، وہ زیادہ پھرتی سے کام کرتے ہیں۔“
خاوند نے یہ بات بھی مان لی اور کہا ” کل صبح سے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا تاکہ سورج ڈھلنے تک روزانہ بہت سا کام ہوجایا کرے۔“ بیوی نے کہا ” نہیں، چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دوپہر کو صرف آدھ گھنٹے آرام کیا کریں گے۔“ خاوند نے کہا ” چلو، یوں ہی سہی۔ موسم تو خوشگوار ہے۔ دوپہر کو آرام نہ بھی کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔“ بیوی بولی۔
”موسم خوشگوار کب ہے۔ سخت گرمی ہے اور خاک بھی اڑاتی ہے آرام کرنا ضروری ہوگا۔“
خاوند نے بات مان لی اور کہا ” آج ہی درانتیاں تیز کرالینی چاہئیں، تاکہ فصل اچھی طرح کٹ سکے۔“ بیوی بولی ۔
” واہ کیا خوب! درانتیاں نہیں قینچیاں کہو۔ اس سال ہم درانتی کے بجائے قینچیاں استعمال کریں گے۔“
اب خاوند سے نہ رہا گیا۔ وہ جھلا کر بولا ” واقعی الٹی کھوپڑی کی عورت ہو تم۔ رائی کی فصل کہیں قینچی سے کٹتی ہے۔ تمہاری عقل تو خراب نہیں ہو گئی۔“
بیوی نے بگڑ کر کہا ” عقل خراب ہوگی تمہاری ۔ ہم تو فصل قینچی سے ہی کاٹیں گے۔“
خاوند بولا ” پاگل نہ بنو۔ میں قینچی کو قریب بھی لانے نہ دوں گا۔“
” اور میں درانتی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی۔“ بیوی نے تڑک کر کہا۔
”نہیں قینچی ہر گز نہیں۔“
”نہیں ، درانتی ہر گز نہیں۔“
” لوگ رائی کی فصل قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے۔“
” نہیں وہ درانتی دیکھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے۔“
”تم نہیں جانتیں ۔ اس موقع کے لیے درانتی ہی زیادہ مناسب ہے۔“
” کون کہتا ہے۔ قینچی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
” کچھ بھی ہو، میں کہتا ہوں کہ درانتی چلے گی۔“
” اور میں کہتی ہوں کہ قینچی چلے گی۔“
یہ بحث کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی ندی پر بنی ہوئی پلیا پر سے گزررہے تھے۔ بیوی غصے سے اس درجہ بے تاب تھی کہ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ پلیا کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے۔ آخری بار جو اس نے غصے میں پلٹ کر جواب دیا تو پائوں کنارے سے باہر جا پڑااور وہ سنبھل نہ سکی۔ دھڑام سے ندی میں گرگئی۔ پانی اس جگہ خاصا گہرا تھا اور اسے زیادہ تیرنا نہیں آتا تھا۔
وہ ڈبکیاں کھانے لگی ۔ پہلی ڈبکی پر جب وہ ابھری تو اس کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ وہ مدد کے لیے نہیں چلائی بلکہ چیخ کر بولی ”قینچی، صرف قینچی۔“
کچھ خاوند کو بھی اس روز ضد ہو گئی تھی۔ اس نے فورا ً چلا کر کہا ”نہیں درانتی۔“ اور بیوی کو پانی سے باہر نکالنے کی ترکیب پر غور نہیں کیا۔
بیوی اپنے خاوند کا جواب سن نہیں سکی۔ وہ پھر پانی کے نیچے پہنچ چکی تھی اور جب وہ دوبارا ابھری تو پھر چیخ کر کہنے لگی۔ ” قینچی صرف قینچی“
اب اس کا سانس زیادہ اکھڑ چلا تھا۔ خاوند تنگ آگیااور اسے بیوی پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس نے فوراً کہا ”صرف درانتی۔“
اب بیوی نے جلدی جلدی غوطے کھانے شروع کر دیئے۔ لیکن وہ جتنی بار پانی سے ابھری، اس نے صرف ایک ہی لفظ کہا ”قینچی۔“ اور خاوند نے بھی جواب ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا ۔”درانتی“ کہنے کے سوا اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
پھر بہت دیر تک عورت پانی میں غائب رہی۔ آخری بار جب وہ ابھری تو نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس کی زبان بند ہو چکی تھی کیونکہ بولنے کی قوت جواب دے گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک ہاتھ پانی کی سطح سے اونچا کیا اور قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں دو انگلیاں مٹکا کر گویا اشارے سے ظاہر کیا کہ فصل قینچی سے کٹے گی۔
مرد بھی اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ بھی اس طرح لہرایا جیسے فصل کاٹنے وقت درانتی گھمائی جاتی ہے۔
اس کے بعد عورت کا سر پانی کی سطح پر بالکل نظر نہیں آیا۔ خاوند کچھ دیر تک لہروں پر نظر جمائے گھورتا رہا۔ پھر اس نے چیخنا چلانا شروع کیا ” ارے لوگو! دوڑو۔ الٹی کھوپڑی پانی میں ڈوب گئی۔ اسے بچائو ، جلدی بچائو۔“
آس پاس کے سب کسان بھاگے آئے۔ تقریباً سبھی تیرنا جانتے تھے۔ انہوں نے لنگر لنگوٹے کس لیے اور فوراً ندی میں کود پڑے۔ وہ اسی جگہ پانی میں ڈبکیاں لگاتے چاروں طرف ہاتھ پائوں مارتے رہے۔ پھر پانی کے بہائو کی طرف چلنے لگے لیکن کسان نے فوراً للکار کر کہا ” نہیں بھائی نہیں، تم اس الٹی کھوپڑی والی عورت کو اچھی طرح جانتے ہو اور پھر بھی پانی کے بہائو کی طرف اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو۔ وہ ضرور چڑھائو کی طرف گئی ہوگی۔“
یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔ وہ کوشش کرکے چڑھائو کی طرف تیرنے لگے اور بہت جلد عورت پانی کے اندر اگنے والی ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی مل گئی۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اس طرح اپنا خاموش فیصلہ دے رہی تھی۔
کسان روتا دھوتا بیوی کا جنازہ اپنے گھر لے گیا۔ شام کو اس کی تجہیز و تکفین کر دی گئی اور خاوند نے یادگار کے طور پر اس کی قبر کے سرہانے ایک درانتی گاڑ دی۔جو آج تک گڑی ہوئی ہے۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے اسی نام سے پکار کر اسے پکارتے اور جب وہ مارنے کے لیے دوڑتی تو دور بھاگ جاتے تھے۔ وہ کھیت میں کام کرتی تو ایک جھاڑی سے آواز آتی ”ارے بہن الٹی کھوپڑی کیا کررہی ہو۔“ وہ جل کر اس جھاڑی کی طرف لپکتی تو فوراً دوسری جھاڑی سے ویسی ہی آواز آتی۔ وہ رک جاتی اور پلٹ کر دوسری طرف جاتی کہ اتنے میں ایک اور آواز تیسری جھاڑی سے آتی۔ یہ سب کچھ ہوتا لیکن وہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑتی تھی۔
پڑوس کی عورتیں بھی اس سے تنگ آگئی تھیں جب وہ بولتیں کہ کنویں پر چلیں، پانی لے آئیں تو وہ کہتی کہ نہیں پانی تو ندی سے لانا چاہیے۔ جب وہ کہتیں کہ آئواپلے پہاڑی پر تھاپ دیں تو وہ کہتی کہ نہیں پہاڑی کے دامن میں مناسب رہیں گے۔ جب مچھلی والا اس کے گھر کے قریب آواز لگاتا ”بام مچھلی لے لو، بام مچھلی۔“ تو وہ کہتی کہ تم سرمئی یا سنگھاڑا کیوں نہیں لائے اور جب سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی ہوتی تو بام مانگتی۔ کسان کہتا کہ آج آلو پکا لو تو وہ کہتی کہ نہیں آج تو دال پکے گی۔ خاوند کہتا کہ میری قمیض پھٹ گئی ہے۔ ذرا اس کوسی دو، تو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ درست کرالو، حالاں کہ وہ پہلے ہی ٹھیک ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کو سخت جاڑے میں ٹھنڈا شربت پلا کر بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی کے موسم میں صرف گرم چائے پی جاتی ہے۔ اسی لیے سب کو یقین تھا کہ اس کی کھوپڑی الٹی لگی ہوئی ہے۔
پڑوسی آکر کسان سے شکایت کرتے کہ تمہاری بیوی ہمیشہ ہم سے الجھتی رہتی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرکے کہتا ”بھائیو! اسے غنیمت سمجھو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ وہ باہر نکل کر صرف چند لمحے کے لیے تم سے الجھتی ہے۔ میرا اس کا ہر وقت کا ساتھ ہے۔ وہ اپنی الٹی کھوپڑی سے میرا دماغ بھی الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ میں رات کو تھکا ہارا چت لیٹتا ہوں تو وہ ٹہوکا دے کر کہتی ہے کہ کروٹ سے کیوں نہیں لیٹتے۔ جب میں کام پر جلدی جانے کے خیال سے روٹی کے نوالے تیز تیز کھاتا ہوں، تو وہ روک کر کہتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں ہے، ابھی بہت دقت ہے اور جب میں آہستہ آہستہ اطمینان سے روٹی کھاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ جلدی کرو، کام کاہرج ہو رہا ہے۔ کھانا ساتھ لے جائو۔ راستے میں چلتے چلتے کھا لینا، حالاں کہ اس روز کھیت پر جلدی جانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے بھائیو! میں تو خود بھی اس سے تنگ آگیا ہوں، بتائو تمہاری شکایات کس طرح دور کروں؟“
فصل پک جانے کا زمانہ تھا۔ ایک روز دونوں میاں بیوی صبح ہی صبح اپنے کھیت دیکھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ کسان نے خیال ظاہر کیا، ” منگل تک فصل کاٹنے کی نوبت آئے گی“ بیوی بولی ”نہیں بدھ سے پہلے یہ کام ہر گز شروع نہ کیا جائے۔“
خاوند نے کہا ” بہت اچھا ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے دو بھائیوں کو بلوا لوں تاکہ وہ ہمارا ہاتھ بٹا سکیں۔“ بیوی بولی۔ ” نہیں میرے دو بھائیوں کو بلوائو، وہ زیادہ پھرتی سے کام کرتے ہیں۔“
خاوند نے یہ بات بھی مان لی اور کہا ” کل صبح سے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا تاکہ سورج ڈھلنے تک روزانہ بہت سا کام ہوجایا کرے۔“ بیوی نے کہا ” نہیں، چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دوپہر کو صرف آدھ گھنٹے آرام کیا کریں گے۔“ خاوند نے کہا ” چلو، یوں ہی سہی۔ موسم تو خوشگوار ہے۔ دوپہر کو آرام نہ بھی کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔“ بیوی بولی۔
”موسم خوشگوار کب ہے۔ سخت گرمی ہے اور خاک بھی اڑاتی ہے آرام کرنا ضروری ہوگا۔“
خاوند نے بات مان لی اور کہا ” آج ہی درانتیاں تیز کرالینی چاہئیں، تاکہ فصل اچھی طرح کٹ سکے۔“ بیوی بولی ۔
” واہ کیا خوب! درانتیاں نہیں قینچیاں کہو۔ اس سال ہم درانتی کے بجائے قینچیاں استعمال کریں گے۔“
اب خاوند سے نہ رہا گیا۔ وہ جھلا کر بولا ” واقعی الٹی کھوپڑی کی عورت ہو تم۔ رائی کی فصل کہیں قینچی سے کٹتی ہے۔ تمہاری عقل تو خراب نہیں ہو گئی۔“
بیوی نے بگڑ کر کہا ” عقل خراب ہوگی تمہاری ۔ ہم تو فصل قینچی سے ہی کاٹیں گے۔“
خاوند بولا ” پاگل نہ بنو۔ میں قینچی کو قریب بھی لانے نہ دوں گا۔“
” اور میں درانتی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی۔“ بیوی نے تڑک کر کہا۔
”نہیں قینچی ہر گز نہیں۔“
”نہیں ، درانتی ہر گز نہیں۔“
” لوگ رائی کی فصل قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے۔“
” نہیں وہ درانتی دیکھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے۔“
”تم نہیں جانتیں ۔ اس موقع کے لیے درانتی ہی زیادہ مناسب ہے۔“
” کون کہتا ہے۔ قینچی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
” کچھ بھی ہو، میں کہتا ہوں کہ درانتی چلے گی۔“
” اور میں کہتی ہوں کہ قینچی چلے گی۔“
یہ بحث کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی ندی پر بنی ہوئی پلیا پر سے گزررہے تھے۔ بیوی غصے سے اس درجہ بے تاب تھی کہ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ پلیا کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے۔ آخری بار جو اس نے غصے میں پلٹ کر جواب دیا تو پائوں کنارے سے باہر جا پڑااور وہ سنبھل نہ سکی۔ دھڑام سے ندی میں گرگئی۔ پانی اس جگہ خاصا گہرا تھا اور اسے زیادہ تیرنا نہیں آتا تھا۔
وہ ڈبکیاں کھانے لگی ۔ پہلی ڈبکی پر جب وہ ابھری تو اس کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ وہ مدد کے لیے نہیں چلائی بلکہ چیخ کر بولی ”قینچی، صرف قینچی۔“
کچھ خاوند کو بھی اس روز ضد ہو گئی تھی۔ اس نے فورا ً چلا کر کہا ”نہیں درانتی۔“ اور بیوی کو پانی سے باہر نکالنے کی ترکیب پر غور نہیں کیا۔
بیوی اپنے خاوند کا جواب سن نہیں سکی۔ وہ پھر پانی کے نیچے پہنچ چکی تھی اور جب وہ دوبارا ابھری تو پھر چیخ کر کہنے لگی۔ ” قینچی صرف قینچی“
اب اس کا سانس زیادہ اکھڑ چلا تھا۔ خاوند تنگ آگیااور اسے بیوی پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس نے فوراً کہا ”صرف درانتی۔“
اب بیوی نے جلدی جلدی غوطے کھانے شروع کر دیئے۔ لیکن وہ جتنی بار پانی سے ابھری، اس نے صرف ایک ہی لفظ کہا ”قینچی۔“ اور خاوند نے بھی جواب ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا ۔”درانتی“ کہنے کے سوا اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
پھر بہت دیر تک عورت پانی میں غائب رہی۔ آخری بار جب وہ ابھری تو نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس کی زبان بند ہو چکی تھی کیونکہ بولنے کی قوت جواب دے گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک ہاتھ پانی کی سطح سے اونچا کیا اور قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں دو انگلیاں مٹکا کر گویا اشارے سے ظاہر کیا کہ فصل قینچی سے کٹے گی۔
مرد بھی اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ بھی اس طرح لہرایا جیسے فصل کاٹنے وقت درانتی گھمائی جاتی ہے۔
اس کے بعد عورت کا سر پانی کی سطح پر بالکل نظر نہیں آیا۔ خاوند کچھ دیر تک لہروں پر نظر جمائے گھورتا رہا۔ پھر اس نے چیخنا چلانا شروع کیا ” ارے لوگو! دوڑو۔ الٹی کھوپڑی پانی میں ڈوب گئی۔ اسے بچائو ، جلدی بچائو۔“
آس پاس کے سب کسان بھاگے آئے۔ تقریباً سبھی تیرنا جانتے تھے۔ انہوں نے لنگر لنگوٹے کس لیے اور فوراً ندی میں کود پڑے۔ وہ اسی جگہ پانی میں ڈبکیاں لگاتے چاروں طرف ہاتھ پائوں مارتے رہے۔ پھر پانی کے بہائو کی طرف چلنے لگے لیکن کسان نے فوراً للکار کر کہا ” نہیں بھائی نہیں، تم اس الٹی کھوپڑی والی عورت کو اچھی طرح جانتے ہو اور پھر بھی پانی کے بہائو کی طرف اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو۔ وہ ضرور چڑھائو کی طرف گئی ہوگی۔“
یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔ وہ کوشش کرکے چڑھائو کی طرف تیرنے لگے اور بہت جلد عورت پانی کے اندر اگنے والی ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی مل گئی۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اس طرح اپنا خاموش فیصلہ دے رہی تھی۔
کسان روتا دھوتا بیوی کا جنازہ اپنے گھر لے گیا۔ شام کو اس کی تجہیز و تکفین کر دی گئی اور خاوند نے یادگار کے طور پر اس کی قبر کے سرہانے ایک درانتی گاڑ دی۔جو آج تک گڑی ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment