Lok dastan Tabsra

لوک داستانوں کے مطالعے کی ضرورت ....؟
قصے، کہانیاں یا داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہی ہیں کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ یہ انسانی تخیل کا ہی نتیجہ ہیں اور تخیل ایسی قوت ہے جو عقل سے برتر ہے ۔ ایچ جی ویلز نے تخیلی کہانیاں پہلے لکھیں پہلے سائنس نے ان کی تکمیل بعد میں کی ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری داستانیں سائنس و ترقی کی پیش رو ثابت نہ ہو سکیں ۔ تاہم یہ بات کہنے میں عار نہیں کہ لوک داستانیں انسان کی ان خواہشوں کا نتیجہ ہیں جن کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی تھی۔ تاریخ انسانی کی اجتماعی فکر کی روایت کو لوک ادب ہی نے محفوظ رکھا۔ یہ سر مایہ ادب آج کی تیز رفتا زندگی میں نفسا نفسی کے شکار انسان کی ترجیحات سے معدوم ہو گیا ہے ۔ اسی تناظر میں حیاتینز لٹریری سوسائٹی یونیورسٹی آف گجرات نے ”پنجاب کی لوک داستانیں: اہمیت و اثرات“ کے موضوع پر فکر انگیز مذاکرے کا اہتمام کیا اور میری خوش بختی کہ دانش گاہ گجرات کے متحرک فکر طلباءو طالبات سے مکالمے کا موقع نصیب ہوا۔ جامعہ گجرات کے IHRM کا ماحول جمالیاتی ذوق کی تسکین اور فکری مباحثے کے لیے پرسکون ماحول کی فراہمی کا ضامن ہے ۔ ایسے صحت مند ماحول میں ادب و تنقیدکے فہم و شوق کے حامل متوالوں کا بھرپور اجتماع HLSکے کوارڈینیٹر شعبہ انگریزی کے استاد عمران اسلم کے حوصلے، میزبانی اور اعلیٰ ظرفی کا مرہون منت تھا ۔ عمران اسلم نے گفتگو کے آغاز سے پہلے شستہ و شائستہ انداز میں موضوع بحث کا جامع تعارف کروایا اور کہا کہ لوک کہانیاں ہماری روایت کا نام ہے ۔ قصے، کہانیاں اور داستانیں ہماری تاریخ کا اہم باب ہیں ،ادبی فکر کے فروغ میں لوک داستانوں کا مطالعہ و تجزیہ خصوصی توجہ کا طالب ہے اور آج کی نشست اسی لیے منعقد کی گئی ہے ۔
 ناظم تقریب نے مجھے اظہار خیال کی دعوت دی تومیرا خیال تھا کہ داستانیں تہذیب اور ادب کے بچپن کی پیداوار اور دنیا کے اعلیٰ ترین ادب کی بنیاد ہیں ۔ ان کی ترکیب و تہذیب میں ہر شخص کا حصہ ہوتا ہے اور ان میں سماج کی اجتماعی روح کا رفرما ہوتی ہے اس لیے انہیں لوک ادب و لوک داستانیں کہا جاتا ہے ۔ داستانوں کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں مسائل زیست کا کھرا او ربے لاگ تذکرہ ہوتا ہے ۔ یہ عالمی ادب و تاریخ کا ایک مستقل، مسلسل اور اہم مآخذ ہیں۔ یہ ادب عام آدمی کے لاشعور کا عکاس ہوتا ہے ۔ اور اس میں مقامی ثقافتی شعور او رہمہ گیر دانائی و دانش کی جاذبیت بھی نمایاں ہوتی ہیں پنجاب میں لوک داستانیں ، قصے ، روایات پنجاب کے کلچر کا جاندار حصہ ہیں ۔یہ عوام کی تفریح کا ذریعہ ہی نہیں ان کی ذہنی، نفسیاتی ، معاشرتی و اخلاقی تربیت کا وسیلہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کا لوک ادب سماجی حدود پھلانگ کر محبت و الفت اور عہد و پیمان نبھانے والوں کو ہیرو اور ہیروئن کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ جس کردار و صفات کو سماج نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے وہی کردار لوک ادب کی جان بن جاتے ہیں اور جو لوگ داستانوں میں محض عشق حقیقی اور عشق مجاز ہی کو بھرپور انداز میں دیکھنا چاہتے ہیںان کے لیے پنجابی کے نقاد و ادیب شریف کنجاہی کی یہ بات ہی کافی ہے کہ اس روگ سے گلو خلاصی کر لینی چاہئے تاکہ دکھی سماج کو سکھی بنایا جاسکے۔ ہماری پنجابی لوک داستانیں بظاہر عشقیہ المیے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ انسان نے اپنی رومانی ترقی کو کسی حال اور کسی عہد میں بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ وطن پرستی اور احساس قومیت بھی ان داستانوں کا نمایاں وصف ہے ۔ جس عہد میں یہ داستانیں رقم ہوئیںاس وقت پنجاب کا معاشرہ بڑی تبدیلی کے عمل سے گذر رہا تھا اسی لیے کسی نے لکھا ہے کہ ”مہینوال کی موت ایک تہذیب کا خاتمہ اور دوسری تہذیب کی ابتدا ءہے فضل شاہ نے عشق کے محاورے میں مہینوال کو مغلیہ تہذیب کے زوال کی علامت بناکے پیش کیا ۔ وارث شاہ کے زمانہ جامد تصورات کا زمانہ ہے اس لیے وارث شاہ کاپنجاب کی ابتر صورتحال پر تنقید ضرور کرتا 
ہے تاہم ایک دانشور کے ناطے جدید معاشرے کی بنیادوں کی نشاندہی نہیں کر پایا۔ انگریزی زبان و ادب کے سینئر استاد ہمایوں خاں غوری نے کہا کہ پنجابی لوک ادب کو سامراج کے تناظر میں رکھ کر پرکھا جا سکتا ہے ۔ 
لوک ادب دنیا کی تمام اقوام کا سنہری بچپن ہے ۔ ہر قوم اور معاشرہ اپنے جداگانہ لوک ادب کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے ۔ انہوں نے ولاد یمیر پراپ اور کلادلیوںسٹراس کی تحریر وں کی روشنی میں لوک ادب اور اسطورہ کا بھرپو ر تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ۔ شعبہ لسانیات کے ڈاکٹر محمد شہباز نے لوک ادب اور مقامی زبانوں کے تعلق کے تناظر میں تجزیہ کیا ۔ انگریزی ادب کی ریسرچ سکالر فاطمہ اعجاز نے کہا کہ لوک داستانیں لوکائی کی تاریخ کی عکاس ہیں۔ اس لیے لوک دستانوں سے آگاہی کے بغیر عوامی فکر کا ارتقاء ممکن نہیں ۔ نسل نو  کو لوک ادب سے متعارف کروا کے جدیدیت کی روایت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے ۔ حیاتینز لٹریری سوسائٹی کی صدر ثنا مبین، نائب صدر آصفہ فرحت، شعبہ فزکس کی فائزہ گیلانی، نادیہ پروین ، بی بی اے کے محمد عثمان ، آئی ٹی کی صبا مشتاق اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی طالبات عطیہ قمر، ثنا امتیاز، ردا بٹ، روہا رفیق ، آمنہ وحید نے لوک داستانوں کے مطالعے کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کے حوالے سے دلچسپ اور فکر انگیز سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ کیا ادب میں کوئی ایسا اصول موجود ہے جن پر داستانوں کی حقیقی قدر و قیمت کو پرکھا جا  سکے؟ میرا کہنا یہ تھا کہ ہمیں اسی اصول کو تلاش کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی تلاش میں ہم اپنی تہذیب کے مرکزی اصولوں تک پہنچ جائیں جو جدید تہذیب کے مرکزی اصولوں سے مختلف ہیںاسی طرح قدیم اور جدید کا فرق واضح ہو کر ہمارے سامنے آئے گا ۔ وہ فرق جو صرف دو تہذیبوں کا فرق نہیں بلکہ دو ذہنیتوں کا فرق ہے ۔ ادب فہمی کا فروغ ہمیں مضبوط فکر انسان بنا سکتا ہے جس کی بنا پر ہم کئی حقیقتوں کو تلاش کرنے کی ہمت اور جرÉت کر پائیں گے ۔ ہمارے پاس اپنا تخیل نہیں رہا ۔ ہم دوسروں کے ذہنوں سے سوچتے ہیں اسی لیے دیگر تہذیبوں کے کارندے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ تخیل کی پرواز سے ہی عمل کی تعبیر حاصل ہو پائے گی ۔ نئی نسل کو سوچنے اور ان کی قوت تخیل کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں داستانوں سے متعارف کروانا ضروری ہے ۔ جامعہ گجرات کی حیاتینز لٹریری سوسائٹی نے یہ علم بلند کیا ہے یہ خوش آئند بات ہے ۔ سخنوروں کی بستی گجرات علم و ادب کا مرکز ہونے کی وجہ سے خطہ یونان کی شہرت رکھتی ہے ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سوسائٹی گجرات میں ادب و تنقید کے احیائے نو کی تحریک ثابت ہو گی ۔  ٭

No comments:

Post a Comment

Disqus Shortname

Comments system